جمعہ - فضائل، مسائل اور احکام

از:       مولانا محمد نجیب قاسمی، ریاض    

بسم اللہ الرحمن الرحیم

          اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبّ الْعَالَمِیْن، وَالصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِیمِ وَعَلٰی اٰلِہِ وَاَصحَابِہ اَجْمَعِین

          اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے ساری کائنات پیدا فرمائی اور ان میں سے بعض کو بعض پر فوقیت دی․․․․ سات دن بنائے ، اور جمعہ کے دن کو دیگر ایام پر فوقیت دی۔ جمعہ کے فضائل میں یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ ہفتہ کے تمام ایام میں صرف جمعہ کے نام سے ہی قرآن کریم میں سورہ نازل ہوئی ہے جس کی رہتی دنیا تک تلاوت ہوتی رہے گی، ان شاء اللہ۔

سورہٴ جمعہ کا مختصر بیان:

          سورہٴ جمعہ مدنی ہے۔ اس سورہ میں ۱۱ آیات اور ۲ رکوع ہیں۔ اس کی ابتدا اللہ جل شانہ کی تسبیح اور تعریف سے کی گئی ہے، جس میں اللہ تعالیٰ کی چارصفتیں بیان کی گئی ہیں:

          (۱)      الملک (بادشاہ) حقیقی ودائمی بادشاہ، جس کی بادشاہت پر کبھی زوال نہیں ہے۔

          (۲)      القدوس (پاک ذات) جو ہر عیب سے پاک وصاف ہے۔

          (۳)     العزیز (زبردست) جو چاہتا ہے کرتا ہے، وہ کسی کا محتاج نہیں ہے، ساری کائنات کے بغیر سب کچھ کرنے والا ہے۔

          (۴)     الحکیم (حکمت والا) اُس کا ہر فیصلہ حکمت پر مبنی ہوتا ہے۔ اس کے بعد نبی اکرم ﷺ کی رسالت ونبوت کا ذکر کیا گیا ہے کہ ہم نے ناخوانداہ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا، جو اُنھیں ہماری آیتیں پڑھ کر سناتا ہے ، اُن کو پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب وحکمت سکھاتا ہے۔ پھر یہود ونصاری کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس سورہ کی آخری ۳ آیتوں میں نمازجمعہ کا ذکر ہے:

          ”اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے پکارا جائے، یعنی نماز کی اذان ہوجائے، تو اللہ کی یاد کے لیے جلدی کرو۔ اور خرید وفروخت چھوڑدو۔ یہ تمہارے حق میں بہت ہی بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔ ﴿آیت ۹﴾ اور جب نماز ہوجائے تو زمین میں پھیل جاوٴ اور اللہ کا فضل تلاش کرو یعنی رزق حلال تلاش کرو۔ اور اللہ کو بہت یاد کرو؛ تاکہ تم کامیاب ہوجاوٴ۔ ﴿آیت ۱۰﴾ جب لوگ سودا بکتا دیکھتے ہیں یا تماشہ ہوتا ہوا دیکھتے ہیں، تو اُدھر بھاگ جاتے ہیں اور آپ کو کھڑا چھوڑ دیتے ہیں۔ تو فرمادیجیے جو اللہ کے پاس ہے وہ بہتر ہے، تماشے سے اور سودے سے، اور اللہ سب سے بہتر رزق دینے والے ہیں“۔ ﴿آیت ۱۱

          آخری آیت (نمبر ۱۱) کا شان نزول : ابتداء ِاسلام میں جمعہ کی نماز پہلے اور خطبہ بعد میں ہوتا تھا؛ چنانچہ ایک مرتبہ نبی اکرم ﷺ جمعہ کی نماز سے فراغت کے بعد خطبہ دے رہے تھے کہ اچانک وحیہ بن خلیفہ کا قافلہ ملک ِشام سے غلّہ لے کر مدینہ منورہ پہنچا۔ اُس زمانے میں مدینہ منورہ میں غلّہ کی انتہائی کمی تھی۔ صحابہٴ کرام نے سمجھا کہ نمازِ جمعہ سے فراغت ہوگئی ہے اور گھروں میں غلّہ نہیں ہے، کہیں سامان ختم نہ ہوجائے؛ چنانچہ خطبہٴ جمعہ چھوڑکر باہر خرید وفروخت کے لیے چلے گئے، صرف ۱۲ صحابہ مسجد میں رہ گئے، اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔

          حضرت عراک بن مالک جمعہ کی نماز سے فارغ ہوکرلوٹ کر مسجد کے دروازہ پر کھڑے ہوجاتے اور یہ دعا پڑھتے:

          اللّٰھُمَّ اِنّی اَجَبْتُ دَعْوَتَکَ، وَصَلّیْتُ فَرِیْضَتَک، وَانْتَشَرْتُ کَمَا اَمَرْتَنِی فَارْزُقْنِی مِنْ فَضْلِک وَاَنْتَ خَیْرُ الرَّازِقِین۔

          اے اللہ! میں نے تیری آواز پر حاضری دی، اور تیری فرض نماز ادا کی، پھر تیرے حکم کے مطابق اس مجمع سے اٹھ آیا، اب تو مجھے اپنا فضل نصیب فرما ، تو سب سے بہتر روزی رساں ہے۔ (ابن ابی حاتم) تفسیر ابن کثیر۔ اس آیت کے پیش نظر بعض سلف صالحین نے فرمایا ہے کہ جو شخص جمعہ کے دن نمازِ جمعہ کے بعد خرید وفروخت کرے، اسے اللہ تعالیٰ ستر حصے زیادہ برکت دے گا۔ (تفسیر ابن کثیر)۔

اذانِ جمعہ:

          جس اذان کا اس آیت میں ذکر ہے، اس سے مراد وہ اذان ہے، جو امام کے منبر پر بیٹھ جانے کے بعد ہوتی ہے۔ نبیِ اکرمﷺ کے زمانے میں یہی ایک اذان تھی۔ جب آپ حجرہ سے تشریف لاتے، منبر پر جاتے، تو آپ کے منبر پر بیٹھنے کے بعد آپ ﷺکے سامنے یہ اذان ہوتی تھی۔ اس سے پہلے کی اذان حضور اکرم ﷺ ، حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق کے زمانے میں نہیں تھی۔ حضرت عثمان بن عفان کے زمانے میں جب لوگ بہت زیادہ ہوگئے تو آپ نے دوسری اذان ایک الگ مکان (زوراء) پر کہلوائی تاکہ لوگ نماز کی تیاری میں مشغول ہوجائیں۔ زوراء: مسجد کے قریب سب سے بلند مکان تھا۔

ایک اہم نقطہ:

           اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ارشاد فرمایا: ”جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے“ ”جب نماز سے فارغ ہوجائیں“ یہ اذان کس طرح دیجائے؟ اس کے الفاظ کیاہوں؟ نماز کس طرح ادا کریں؟ یہ قرآن کریم میں کہیں نہیں ہے، البتہ حدیث میں ہے۔ معلوم ہوا کہ حدیث کے بغیر قرآن کریم سمجھنا ممکن نہیں ہے۔

جمعہ کا نام جمعہ کیوں رکھا گیا:

           اس کے مختلف اسباب ذکر کیے جاتے ہیں:

          (۱) جمعہ ”جمع“ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی ہیں: جمع ہونا؛ کیونکہ مسلمان اِس دن بڑی مساجد میں جمع ہوتے ہیں اور امت ِمسلمہ کے اجتماعات ہوتے ہیں ، اِس لیے اِس دن کو جمعہ کہا جاتا ہے۔ (۲) چھ دن میں اللہ تعالیٰ نے زمین وآسمان اور تمام مخلوق کو پیدا فرمایا۔ جمعہ کے دن مخلوقات کی تخلیق مکمل ہوئی یعنی ساری مخلوق اس دن جمع ہوگئی؛ اس لیے اِس دن کو جمعہ کہا جاتا ہے۔ (۳) اِس دن یعنی جمعہ کے دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا کیے گئے، یعنی اُن کو اِس دن جمع کیا گیا۔

اسلام کا پہلا جمعہ:

          یوم الجمعہ کو پہلے ”یوم العروبہ“ کہا جاتا تھا۔ نبیِ اکرم ﷺ کے مدینہ منورہ ہجرت کرنے اور سورہٴ جمعہ کے نزول سے قبل انصار صحابہ نے مدینہ منورہ میں دیکھا کہ یہودی ہفتہ کے دن ، اور نصاریٰ اتوار کے دن جمع ہوکر عبادت کرتے ہیں؛ لہٰذا سب نے طے کیا کہ ہم بھی ایک دن اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کے لیے جمع ہوں؛ چنانچہ حضرت ابو امامہ کے پاس جمعہ کے دن لوگ جمع ہوئے، حضرت اسعد بن زرارة نے دو رکعت نماز پڑھائی۔ لوگوں نے اپنے اِس اجتماع کی بنیاد پر اِس دن کا نام ”یوم الجمعہ“ رکھا ؛ اس طرح سے یہ اسلام کا پہلا جمعہ ہے (تفسیر قرطبی)

نبی اکرم کا پہلا جمعہ:

          نبی اکرم ﷺ نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کے وقت مدینہ منورہ کے قریب بنو عمروبن عوف کی بستی قبا میں چند روز کے لیے قیام فرمایا۔ قُبا سے روانہ ہونے سے ایک روز قبل جمعرات کے دن آپ ﷺ نے مسجد قبا کی بنیاد رکھی۔ یہ اسلام کی پہلی مسجد ہے، جس کی بنیاد تقوی پر رکھی گئی۔ جمعہ کے دن صبح کو نبی اکرم ﷺ قُبا سے مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوئے۔ جب بنو سالم بن عوف کی آبادی میں پہونچے تو جمعہ کا وقت ہوگیا، تو آپ ﷺ نے بطنِ وادی میں اُس مقام پر جمعہ پڑھایا جہاں اب مسجد (مسجد جمعہ) بنی ہوئی ہے۔ یہ نبی اکرم ﷺ کا پہلا جمعہ ہے(تفسیر قرطبی)۔

جمعہ کے دن کی اہمیت:

          یہودیوں نے ہفتہ کا دن پسند کیا جس میں مخلوق کی پیدائش شروع بھی نہیں ہوئی تھی، نصاری نے اتوار کو اختیار کیا، جس میں مخلوق کی پیدائش کی ابتدا ہوئی تھی۔ اور اِس امت کے لیے اللہ تعالیٰ نے جمعہ کو پسند فرمایا، جس دن اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پورا کیا تھا۔ صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہم دنیا میں آنے کے اعتبار سے تو سب سے پیچھے ہیں؛ لیکن قیامت کے دن سب سے پہلے ہوں گے۔مسلم کی روایت میں اتنا اور بھی ہے کہ قیامت کے دن تمام مخلوق میں سب سے پہلے فیصلہ ہمارے بارے میں ہوگا (ابن کثیر)۔

جمعہ کے دن کی اہمیت کے متعلق چند احادیث:

          $  رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جمعہ کا دن سارے دنوں کا سردار ہے، اللہ تعالیٰ کے نزدیک جمعہ کا دن سارے دنوں میں سب سے زیادہ عظمت والا ہے۔ یہ دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک عید الاضحی اور عید الفطر کے دن سے بھی زیادہ مرتبہ والا ہے۔ اس دن کی پانچ باتیں خاص ہیں :

          (۱)      اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا۔

          (۲)      اِسی دن اُن کو زمین پر اتارا۔

          (۳)     اِسی دن اُن کو موت دی۔

          (۴)     اِس دن میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ بندہ اس میں جو چیز بھی مانگتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو ضرور عطا فرماتے ہیں؛ بشرطیکہ کسی حرام چیز کا سوال نہ کرے۔

          (۵)      اور اسی دن قیامت قائم ہوگی۔ تمام مقرب فرشتے ، آسمان، زمین، ہوائیں، پہاڑ، سمندر سب جمعہ کے دن سے گھبراتے ہیں کہ کہیں قیامت قائم نہ ہوجائے؛ اس لیے کہ قیامت، جمعہ کے دن ہی آئے گی (ابن ماجہ)۔

          $ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: سورج کے طلوع وغروب والے دنوں میں کوئی بھی دن جمعہ کے دن سے افضل نہیں ،یعنی جمعہ کا دن تمام دنوں سے افضل ہے (صحیح ابن حبان

          $ رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ جمعہ کے دن ارشاد فرمایا : مسلمانو! اللہ تعالیٰ نے اِس دن کو تمہارے لیے عید کا دن بنایا ہے؛ لہٰذا اِس دن غسل کیا کرو اور مسواک کیا کرو (طبرانی، مجمع الزوائد)۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جمعہ کا دن ہفتہ کی عید ہے۔

          $ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام کی سورہٴ بروج میں﴿وشاھد ومشہود﴾ کے ذریعہ قسم کھائی ہے۔ شاہد سے مراد جمعہ کا دن ہے یعنی اِس دن جس نے جو بھی عمل کیا ہوگا،یہ جمعہ کا دن قیامت کے دن اُس کی گواہی دے گا۔

          $ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ کے نزدیک سب سے افضل نماز جمعہ کے دن فجر کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنا ہے (طبرانی ، بزاز

          $ جہنم کی آگ روزانہ دہکائی جاتی ہے؛ مگر جمعہ کے دن اس کی عظمت اور خاص اہمیت وفضیلت کی وجہ سے جہنم کی آگ نہیں دہکائی جاتی ۔ (زاد المعاد ۱ / ۳۸۷)۔

جمعہ کے دن قبولیت والی گھڑی کی تعیین :

          $ رسول اللہ ﷺ نے جمعہ کے دن کا ذکر کیا اور فرمایا: اس میں ایک گھڑی ایسی ہے، جس میں کوئی مسلمان نماز پڑھے، اور اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کو عنایت فرمادیتا ہے اور ہاتھ کے اشارے سے آپ ﷺ نے واضح فرمایا کہ وہ ساعت مختصر سی ہے (بخاری

          $ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: وہ گھڑی خطبہ شروع ہونے سے لے کر نماز کے ختم ہونے تک کا درمیانی وقت ہے (مسلم

          $ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جمعہ کے دن ایک گھڑی ایسی ہوتی ہے کہ مسلمان بندہ جو مانگتا ہے، اللہ اُس کو ضرور عطا فرمادیتے ہیں۔ اور وہ گھڑی عصر کے بعد ہوتی ہے (مسند احمد مذکورہ حدیث شریف اوردیگر احادیث کی روشنی میں جمعہ کے دن قبولیت والی گھڑی کے متعلق علماء نے دو وقتوں کی تحدید کی ہے: (۱) دونوں خطبوں کا درمیانی وقت، جب امام منبر پر کچھ لمحات کے لیے بیٹھتا ہے۔ (۲) غروبِ آفتاب سے کچھ وقت قبل۔

نماز ِجمعہ کی فضیلت:

          $ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: پانچوں نمازیں، جمعہ کی نماز پچھلے جمعہ تک اور رمضان کے روزے پچھلے رمضان تک درمیانی اوقات کے گناہوں کے لیے کفارہ ہیں؛ جب کہ اِن اعمال کو کرنے والا بڑے گناہوں سے بچے (مسلم یعنی چھوٹے گناہوں کی معافی ہوجاتی ہے۔

          $ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اچھی طرح وضو کرتا ہے، پھر جمعہ کی نماز کے لیے آتا ہے، خوب دھیان سے خطبہ سنتا ہے اور خطبہ کے دوران خاموش رہتا ہے تو اس جمعہ سے گزشتہ جمعہ تک ، اور مزید تین دن کے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں (مسلم) ۔

جمعہ کی نماز کے لیے مسجد جلدی پہنچنا :

          $ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص جمعہ کے دن جنابت کے غسل کی طرح (اہتمام کے ساتھ) غسل کرتا ہے پھر پہلی فرصت میں مسجد جاتا ہے تو گویا اس نے اللہ کی خوشنودی کے لیے اونٹنی قربان کی۔ جو دوسری فرصت میں مسجد جاتا ہے گویا اس نے گائے قربان کی۔ جو تیسری فرصت میں مسجد جاتا ہے گویا اس نے مینڈھا قربان کیا۔ جو چوتھی فرصت میں جاتا ہے، گویا اس نے مرغی قربان کی۔جو پانچویں فرصت میں جاتا ہے، گویا اس نے انڈے سے خدا کی خوشنودی حاصل کی۔ پھر جب امام خطبہ کے لیے نکل آتا ہے توفرشتے خطبہ میں شریک ہوکر خطبہ سننے لگتے ہیں (بخاری، مسلم)۔ یہ فرصت(گھڑی) کس وقت سے شروع ہوتی ہے، علماء کی چند آراء ہیں؛ مگر خلاصہٴ کلام یہ ہے کہ حتی الامکان مسجد جلدی پہونچیں، اگر زیادہ جلدی نہ جاسکیں تو کم از کم خطبہ شروع ہونے سے کچھ وقت قبل ضرور مسجد پہنچ جائیں۔

          $ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب جمعہ کا دن ہوتا ہے تو فرشتے مسجد کے ہر دروازے پر کھڑے ہوجاتے ہیں، پہلے آنے والے کا نام پہلے، اس کے بعد آنے والے کا نام اس کے بعد لکھتے ہیں(اسی طرح آنے والوں کے نام ان کے آنے کی ترتیب سے لکھتے رہتے ہیں)۔ جب امام خطبہ دینے کے لیے آتا ہے تو فرشتے اپنے رجسٹر (جن میں آنے والوں کے نام لکھے گئے ہیں) لپیٹ دیتے ہیں اور خطبہ سننے میں مشغول ہوجاتے ہیں (مسلم)۔

          خطبہٴ جمعہ شروع ہونے کے بعد مسجد پہونچنے والے حضرات کی نمازِ جمعہ تو ادا ہوجاتی ہے، مگر نمازِ جمعہ کی فضیلت اُن کو حاصل نہیں ہوتی ۔

خطبہٴ جمعہ:

          جمعہ کی نماز کے صحیح ہونے کے لیے یہ شرط ہے کہ نماز سے قبل دو خطبے دئے جائیں؛ کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے ہمیشہ جمعہ کے دن دو خطبے دئے (مسلم)۔ دونوں خطبوں کے درمیان خطیب کا بیٹھنا بھی سنت ہے(مسلم)۔ منبرپر کھڑے ہوکر ہاتھ میں عصا لے کر خطبہ دینا سنت ہے۔

دورانِ خطبہ کسی طرح کی بات کرنا؛ حتی کہ نصیحت کرنا بھی منع ہے:

          $ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے جمعہ کے روز دورانِ خطبہ اپنے ساتھی سے کہا (خاموش رہو ) اس نے بھی لغو کام کیا(مسلم)۔

          $ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے کنکریوں کو ہاتھ لگایا یعنی دورانِ خطبہ اُن سے کھیلتا رہا (یا ہاتھ ، چٹائی، کپڑے وغیرہ سے کھیلتا رہا) تو اس نے فضول کام کیا (اور اس کی وجہ سے جمعہ کا خاص ثواب ضائع کردیا) (مسلم

          $ رسول اللہ ﷺ نے خطبہ کے دوران گوٹھ مارکر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے (ترمذی (آدمی اپنے گھٹنے کھڑے کرکے رانوں کو پیٹ سے لگاکر دونوں ہاتھوں کو باندھ لے تو اسے گوٹھ مارنا کہتے ہیں) ۔

          $ حضرت عبد اللہ بن بسر فرماتے ہیں کہ میں جمعہ کے دن منبر کے قریب بیٹھا ہوا تھا، ایک شخص لوگوں کی گردنوں کو پھلانگتا ہوا آیا جب کہ رسول اللہ ﷺ خطبہ دے رہے تھے، آپﷺ نے ارشاد فرمایا: بیٹھ جا، تونے تکلیف دی اور تاخیر کی (صحیح ابن حبان

          نوٹ: جب امام خطبہ دے رہا ہو تو لوگوں کی گردنوں کو پھلانگ کر آگے جانا منع ہے،پیچھے جہاں جگہ ملے وہیں بیٹھ جائے۔

جمعہ کی نماز کا حکم: جمعہ کی نماز ہر اُس مسلمان، صحت مند، بالغ ،مردپر فرض ہے جو کسی شہر یا ایسے علاقے میں مقیم ہو جہاں روز مرہ کی ضروریات مہیّا ہوں۔ معلوم ہوا کہ عورتوں، بچوں، مسافر اور مریض پر جمعہ کی نماز فرض نہیں ہے؛ البتہ عورتیں، بچے، مسافر اور مریض اگر جمعہ کی نماز میں حاضر ہوجائیں تو نماز ادا ہوجائے گی۔ ورنہ اِن حضرات کو جمعہ کی نماز کی جگہ ظہر کی نماز ادا کرنی ہوگی۔

          اگر آپ صحراء میں ہیں جہاں کوئی نہیں ، یا ہوائی جہاز میں سوار ہیں توآپ ظہر کی نماز ادا فرمالیں۔

          نماز ِجمعہ کی دو رکعت فرض ہیں، جس کے لیے جماعت شرط ہے۔ جمعہ کی دونوں رکعت میں جہری قراء ت ضروری ہے۔ نمازِ جمعہ میں سورة الاعلیٰ اور سورہٴ الغاشیہ، یا سورة الجمعہ اور سورة المنافقون کی تلاوت کرنا مسنون ہے۔

جمعہ کے چند سنن وآداب :

          جمعہ کے دن غسل کرنا واحب یا سنت ِموٴکدہ ہے،یعنی عذرِ شرعی کے بغیر جمعہ کے دن کے غسل کو نہیں چھوڑنا چاہیے۔ پاکی کا اہتمام کرنا، تیل لگانا ، خوشبواستعمال کرنا، اور حسب ِاستطاعت اچھے کپڑے پہننا سنت ہے۔

          $ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جمعہ کے دن کا غسل  گناہوں کو بالوں کی جڑوں تک سے نکال دیتا ہے (طبرانی ، مجمع الزوائد یعنی صغائر گناہ معاف ہوجاتے ہیں، بڑے گناہ بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے؛ اگر صغائر گناہ نہیں ہیں تو نیکیوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

          $ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص جمعہ کے دن غسل کرتا ہے، جتنا ہوسکے پاکی کا اہتمام کرتا ہے اور تیل لگاتا ہے یا خوشبو استعمال کرتا ہے، پھر مسجد جاتا ہے، مسجد پہنچ کر جو دو آدمی پہلے سے بیٹھے ہوں ان کے درمیان میں نہیں بیٹھتا، اور جتنی توفیق ہو جمعہ سے پہلے نماز پڑھتا ہے، پھر جب امام خطبہ دیتا ہے اس کو توجہ اور خاموشی سے سنتا ہے تو اِس جمعہ سے گزشتہ جمعہ تک کے گناہ کو معاف ہوجاتے ہیں (بخاری

          $ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے جمعہ کے دن غسل کیا، پھر مسجد میں آیا، اور جتنی نماز اس کے مقدر میں تھی ادا کی، پھرخطبہ ہونے تک خاموش رہا اور امام کے ساتھ فرض نماز ادا کی، اس کے جمعہ سے جمعہ تک اور مزید تین دن کے گناہ بخش دئے جاتے ہیں (مسلم

          $ نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا : جو شخص جمعہ کے دن غسل کرتا ہے، اگر خوشبو ہو تو اسے بھی استعمال کرتا ہے، اچھے کپڑے پہنتا ہے، اس کے بعدمسجد جاتا ہے ، پھر مسجد آکر اگر موقع ہو تو نفل نماز پڑھ لیتا ہے اور کسی کو تکلیف نہیں پہونچاتا۔ پھر جب امام خطبہ دینے کے لیے آتا ہے، اس وقت سے نماز ہونے تک خاموش رہتا ہے یعنی کوئی بات چیت نہیں کرتا تو یہ اعمال اس جمعہ سے گزشتہ جمعہ تک کے گناہوں کی معافی کا ذریعہ ہو جاتے ہیں (مسند احمد)۔

سننِ جمعہ :

          مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ جمعہ کی نماز سے قبل بابرکت گھڑیوں میں جتنی زیادہ سے زیادہ نماز پڑھ سکیں ، پڑھیں۔ کم از کم خطبہ شروع ہونے سے پہلے چار رکعتیں تو پڑھ ہی لیں جیسا کہ (مصنف ابن ابی شیبہ ج ۲ صفحہ ۱۳۱) میں مذکور ہے: مشہور تابعی حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضراتِ صحابہ کرام نمازِ جمعہ سے پہلے چار رکعتیں پڑھا کرتے تھے (نماز پیمبر صفحہ ۲۷۹)۔

          نمازِ جمعہ کے بعد دو رکعتیں یا چار رکعتیں یا چھ رکعتیں پڑھیں، یہ تینوں عمل نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام سے ثابت ہیں۔ بہتر یہ ہے کے چھ رکعت پڑھ لیں تاکہ تمام احادیث پر عمل ہوجائے اور چھ رکعتوں کا ثواب بھی مل جائے؛ اسی لیے علامہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے جمعہ کے بعد چار رکعات پڑھنی چاہئیں، اور حضراتِ صحابہ کرام سے چھ رکعات بھی منقول ہیں (مختصر فتاوی ابن تیمیہ، صفحہ ۷۹) (نماز پیمبر صفحہ ۲۸۱)۔

          $ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تم میں سے کوئی جمعہ کی نماز پڑھ لے تو اس کے بعد چار رکعتیں پڑھے (مسلم

          $ حضرت سالم اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جمعہ کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے (مسلم

          $ حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ انھوں نے حضرت عمر بن عبد اللہ کو جمعہ کے بعد نماز پڑھتے دیکھا کہ جس مصلیٰ پر آپ نے جمعہ پڑھا، اس سے تھوڑا سا ہٹ جاتے تھے، پھر دو رکعتیں پڑھتے، پھر چار رکعتیں پڑھتے تھے۔ میں نے حضرت عطاء سے پوچھا کہ آپ نے حضرت عبداللہ بن عمر کو کتنی مرتبہ ایسا کرتے دیکھا؟ انھوں نے فرمایا کہ بہت مرتبہ۔ (ابو داوٴد)۔

نمازِ جمعہ چھوڑنے پر وعیدیں:

          $ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ جمعہ نہ پڑھنے والوں کے بارے میں فرمایا: میں چاہتا ہوں کہ کسی کو نماز پڑھانے کا حکم دوں پھر جمعہ نہ پڑھنے والوں کو اُن کے گھروں سمیت جلاڈالوں (مسلم

          $ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : خبردار! لوگ جمعہ چھوڑنے سے رک جائیں یا پھر اللہ تعالیٰ اُن کے دلوں پر مہر لگادے گا، پھر یہ لوگ غافلین میں سے ہوجائیں گے (مسلم)۔

          $ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے تین جمعہ غفلت کی وجہ سے چھوڑ دئے، اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دے گا (نسائی، ابن ماجہ، ترمذی، ابوداوٴد

جمعہ کی نماز کے لیے پیدل جانا :

          $ حضرت یزید بن ابی مریم فرماتے ہیں کہ میں جمعہ کی نماز کے لیے پیدل جارہا تھا کہ حضرت عبایہ بن رافع مجھے مل گئے اور فرمانے لگے تمہیں خوشخبری ہو کہ تمہارے یہ قدم اللہ تعالیٰ کے راستہ میں ہیں۔ میں نے ابو عبس کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کے قدم اللہ کے راستہ میں غبار آلود ہوئے تو وہ قدم جہنم کی آگ پر حرام ہے (ترمذی)۔ اسی مضمون کی روایت کچھ لفظی اختلاف کے ساتھ صحیح بخاری میں بھی موجود ہے۔

جمعہ کے دن یا رات میں سورہٴ کہف کی تلاوت:

          $ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو شخص سورہٴ کہف کی تلاوت جمعہ کے دن کرے گا، آئندہ جمعہ تک اس کے لیے ایک خاص نور کی روشنی رہے گی (نسائی، بیہقی، حاکم)۔

          $ سورہٴ کہف کے پڑھنے سے گھر میں سکینت وبرکت نازل ہوتی ہے۔ حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک صحابی نے سورہٴ کہف پڑھی، گھر میں ایک جانور تھا، وہ بدکنا شروع ہوگیا، انہوں نے غور سے دیکھا کہ کیا بات ہے؟ تو انھیں ایک بادل نظر آیا جس نے انھیں ڈھانپ رکھا تھا۔ صحابی نے اس واقعہ کا ذکر جب نبی اکرم ﷺ سے کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: سورہٴ کہف پڑھا کرو۔ قرآن کریم پڑھتے وقت سکینت نازل ہوتی ہے۔ (صحیح البخاری،فضل سورة الکہف۔ مسلم،کتاب الصلاة)۔

جمعہ کے دن دُرود شریف پڑھنے کی خاص فضیلت:

          $ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : تمہارے دنوں میں سب سے افضل دن جمعہ کا دن ہے۔ اِس دن کثرت سے دُرود پڑھاکرو؛کیونکہ تمہارا دُرود پڑھنا مجھے پہونچایا جاتا ہے (مسند احمد، ابوداوٴد، ابن ماجہ، صحیح ابن حبان )۔

          $ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جمعہ کے دن اور جمعہ کی رات کثرت سے دُرود پڑھا کرو، جو ایسا کرے گا، میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا (بیہقی)۔

جمعہ کے دن یا رات میں انتقال کرجانے والے کی خاص فضیلت:

          $ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو مسلمان جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات میں انتقال کرجائے، اللہ تعالیٰ اُس کو قبر کے فتنہ سے محفوظ فرمادیتے ہیں (مسند احمد ، ترمذی)۔

 

$       $       $

------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 8-9 ، جلد: 95 ‏، رمضان — شوال 1432 ہجری مطابق اگست — ستمبر 2011ء